EN हिंदी
دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو | شیح شیری
duniya se tan ko Dhanp qayamat se jaan ko

غزل

دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو

احمد جاوید

;

دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو
دو چادریں بہت ہیں تری آن بان کو

اک میں ہی رہ گیا ہوں کیے سر کو بار دوش
کیا پوچھتے ہو بھائی مرے خاندان کو

جس دن سے اپنے چاک گریباں کا شور ہے
تالے لگا گئے ہیں رفوگر دکان کو

فی الحال دل پہ دل تو لیے جا رہے ہو تم
اور جو حساب بھول گیا کل کلان کو

دل میں سے چن کے ہم بھی کوئی غنچہ اے نسیم
بھیجیں گے تیرے ہاتھ کبھی گلستان کو

مشغول ہیں صفائی و توسیع دل میں ہم
تنگی نہ اس مکان میں ہو میہمان کو