دل بیتاب کے ہم راہ سفر میں رہنا
ہم نے دیکھا ہی نہیں چین سے گھر میں رہنا
سوانگ بھرنا کبھی شاہی کبھی درویشی کا
کسی صورت سے مجھے اس کی نظر میں رہنا
ایک حالت پہ بسر ہو نہیں سکتی میری
جامۂ خاک کبھی خلعت زر میں رہنا
دن میں ہے فکر پس اندازی سرمایۂ شب
رات بھر کاوش سامان سحر میں رہنا
دل سے بھاگے تو لیا دیدۂ تر نے گویا
آگ سے بچ کے نکلنا تو بھنور میں رہنا
اہل دنیا بہت آرام سے رہتے ہیں مگر
کب میسر ہے تری راہ گزر میں رہنا
وصل کی رات گئی ہجر کا دن بھی گزرا
مجھے وارفتگی حال دگر میں رہنا
کر چکا ہے کوئی افلاک و زمیں کی تکمیل
پھر بھی ہر آن مجھے عرض ہنر میں رہنا
غزل
دل بیتاب کے ہم راہ سفر میں رہنا
احمد جاوید