اب میں ہوں اور خواب پریشاں ہے میرے ساتھ
کتنا پڑے گا اور ابھی جاگنا مجھے
احمد علی برقی اعظمی
چپہ چپہ اس کی گلی کا رہا ہے میرے زیر قدم
جوش جنوں سے عزم سفر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
احمد علی برقی اعظمی
اس حال میں کب تک یوں ہی گھٹ گھٹ کے جیوں گا
روٹھا ہے وہ ایسے کہ منا بھی نہیں سکتا
احمد علی برقی اعظمی
روٹھنے اور منانے کے احساس میں ہے اک کیف و سرور
میں نے ہمیشہ اسے منایا وہ بھی مجھے منائے تو
احمد علی برقی اعظمی
سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں اپنا
وہی ہے دشمن جاں میرا سب سے بڑھ کر آج
احمد علی برقی اعظمی
زندگی اس نے بدل کر مری رکھ دی ایسی
نہ مجھے چین نہ آرام ہے کیا عرض کروں
احمد علی برقی اعظمی