EN हिंदी
میں سوز دروں اپنا دکھا بھی نہیں سکتا | شیح شیری
main soz-e-darun apna dikha bhi nahin sakta

غزل

میں سوز دروں اپنا دکھا بھی نہیں سکتا

احمد علی برقی اعظمی

;

میں سوز دروں اپنا دکھا بھی نہیں سکتا
کیا مجھ پہ گزرتی ہے بتا بھی نہیں سکتا

روشن ہے اسی سے مرا کاشانۂ ہستی
اس شمع محبت کو بجھا بھی نہیں سکتا

ہے بار سماعت اسے اظہار تمنا
یہ حال زبوں اس کو سنا بھی نہیں سکتا

زندہ ہے ضمیر اپنا ابھی، سامنے اس کے
اپنا سر تسلیم جھکا بھی نہیں سکتا

حد ہوتی ہے اک ناز اٹھانے کی کسی کے
یہ بار گراں اب میں اٹھا بھی نہیں سکتا

اس حال میں کب تک یوں ہی گھٹ گھٹ کے جیوں گا
روٹھا ہے وہ ایسے کہ منا بھی نہیں سکتا

تھا غیر جسے اپنا سمجھتا تھا بہی خواہ
اب محفل یاراں وہ سجا بھی نہیں سکتا

نافذ ہے زباں بندی کا دستور ابھی تک
کیا دل پہ گزرتی ہے بتا بھی نہیں سکتا

ہر وقت تصور میں ہے جو عظمت رفتہ
کھویا ہوا اعزاز وہ پا بھی نہیں سکتا

خوابوں میں حسیں تاج محل کرتا ہے تعمیر
اپنے لئے اک گھر جو بنا بھی نہیں سکتا

کیوں نیند اڑاتا ہے وہ برقیؔ کی اب اس سے
وہ وعدۂ فردا جو نبھا بھی نہیں سکتا