اس نے کیا ہے وعدۂ فردا آنے دو اس کو آئے تو
نام بدل دینا پھر میرا لوٹ کے واپس جائے تو
عرض تمنا کریں گے اس سے اگر نہ وہ ٹھکرائے تو
اس سے ضرور ملیں گے جا کر پہلے ہمیں بلائے تو
عزت نفس کا ہے یہ تقاضا حسن سلوک کریں دونوں
اس کو ہم لبیک کہیں گے رسم وفا نبھائے تو
صفحۂ ذہن پہ نقش ہے اس کا میرے ابھی تک ناز و نیاز
جیسے شرماتا تھا پہلے ویسے ہی شرمائے تو
روٹھنے اور منانے کے احساس میں ہے اک کیف و سرور
میں نے ہمیشہ اسے منایا وہ بھی مجھے منائے تو
کیوں رہتا ہے مجھ سے بد ظن ہے جو مرا منظور نظر
کچھ نہیں آتا میری سمجھ میں کوئی مجھے سمجھائے تو
خون جگر سے سینچوں گا گل زار تمنا اس کے لئے
باغ حیات میں گل محبت آ کر مرے کھلائے تو
فصل خزاں میں کیا ہوگا آثار نمایاں ہیں جس کے
فصل بہار میں برقیؔ اپنے دل کی کلی مرجھائے تو
غزل
اس نے کیا ہے وعدۂ فردا آنے دو اس کو آئے تو
احمد علی برقی اعظمی