کر کے اسیر غمزہ و ناز و ادا مجھے
اے دل نواز تو نے یہ کیا دے دیا مجھے
جانا تھا اتنی جلد تو آیا تھا کس لئے
ایک ایک پل ہے ہجر کا صبر آزما مجھے
بجھنے لگی ہے شمع شبستان آرزو
اب سوجھتا نہیں ہے کوئی راستا مجھے
آنکھیں تھیں فرش راہ تمہارے لئے سدا
تم آس پاس ہو یہیں ایسا لگا مجھے
یہ درد دل ہے میرے لئے اب وبال جاں
ملتا نہیں کہیں کوئی درد آشنا مجھے
کشتئ دل کا سونپ دیا جس کو نظم و نسق
دیتا رہا فریب وہی ناخدا مجھے
رہزن سے بڑھ کے اس کا رویہ تھا میرے ساتھ
پہلی نگاہ میں جو لگا رہنما مجھے
اب میں ہوں اور خواب پریشاں ہے میرے ساتھ
کتنا پڑے گا اور ابھی جاگنا مجھے
کیا یہ جنون شوق گناہ عظیم ہے
کس جرم کی ملی ہے یہ آخر سزا مجھے
برقیؔ نہ ہو اداس سر رہ گزر ہے وہ
پیغام دے گئی ہے یہ باد صبا مجھے
غزل
کر کے اسیر غمزہ و ناز و ادا مجھے
احمد علی برقی اعظمی