EN हिंदी
کون ہے کس کا یہ پیغام ہے کیا عرض کروں | شیح شیری
kaun hai kis ka ye paigham hai kya arz karun

غزل

کون ہے کس کا یہ پیغام ہے کیا عرض کروں

احمد علی برقی اعظمی

;

کون ہے کس کا یہ پیغام ہے کیا عرض کروں
زندگی نامۂ گمنام ہے کیا عرض کروں

دے کے وہ دعوت نظارہ جہاں پھر نہ ملا
یہ وہی جلوہ گہ عام ہے کیا عرض کروں

زندگی اس نے بدل کر مری رکھ دی ایسی
نہ مجھے چین نہ آرام ہے کیا عرض کروں

حسرت و یاس کا مسکن ہے مرا خانۂ دل
سونا سونا یہ در و بام ہے کیا عرض کروں

آگے پیچھے ہے مرے ایک مصائب کا ہجوم
آج ناکامی بہر گام ہے کیا عرض کروں

میری قسمت میں لکھی تشنہ لبی ہے شاید
اس کے ہاتھوں میں بھرا جام ہے کیا عرض کروں

جب سے وہ خانہ بر انداز ہے سرگرم عمل
جس طرف دیکھیے کہرام ہے کیا عرض کروں

صبح امید کب آئے گی نہ جانے برقیؔ
مضطرب دل یہ سر شام ہے کیا عرض کروں