کون ہے کس کا یہ پیغام ہے کیا عرض کروں
زندگی نامۂ گمنام ہے کیا عرض کروں
دے کے وہ دعوت نظارہ جہاں پھر نہ ملا
یہ وہی جلوہ گہ عام ہے کیا عرض کروں
زندگی اس نے بدل کر مری رکھ دی ایسی
نہ مجھے چین نہ آرام ہے کیا عرض کروں
حسرت و یاس کا مسکن ہے مرا خانۂ دل
سونا سونا یہ در و بام ہے کیا عرض کروں
آگے پیچھے ہے مرے ایک مصائب کا ہجوم
آج ناکامی بہر گام ہے کیا عرض کروں
میری قسمت میں لکھی تشنہ لبی ہے شاید
اس کے ہاتھوں میں بھرا جام ہے کیا عرض کروں
جب سے وہ خانہ بر انداز ہے سرگرم عمل
جس طرف دیکھیے کہرام ہے کیا عرض کروں
صبح امید کب آئے گی نہ جانے برقیؔ
مضطرب دل یہ سر شام ہے کیا عرض کروں
غزل
کون ہے کس کا یہ پیغام ہے کیا عرض کروں
احمد علی برقی اعظمی