سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج
شکست خواب ہے ہر شخص کا مقدر آج
ہے وضع حال مری کیوں یہ بد سے بد تر آج
امیر شہر کے بدلے ہوئے ہیں تیور آج
ہر ایک شخص ہے اپنے حصار میں محصور
ہے سب کے درپئے آزار وہ ستم گر آج
کیا ہے گردش دوراں نے در بدر سب کو
جو سر میں پہلے تھا وہ پاؤں میں ہے چکر آج
سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں اپنا
وہی ہے دشمن جاں میرا سب سے بڑھ کر آج
فصیل شہر کے اندر تھے کتنے اہل ہنر
نہیں ہے جن سے شناسا کوئی بھی باہر آج
دکھا رہا ہے مجھے سبز باغ جو برقیؔ
وہ لے کے پھرتا ہے کیوں آستیں میں خنجر آج
غزل
سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج
احمد علی برقی اعظمی