اس کے گھر سے میرے گھر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
میری اس کی راہ گزر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
چپہ چپہ اس کی گلی کا رہا ہے میرے زیر قدم
جوش جنوں سے عزم سفر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
زلف و لب و رخسار کسی کا ہے میرا موضوع سخن
تاریکی سے نور نظر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
خون جگر شامل ہے میرا اس گل زار کی رونق میں
صحن چمن سے برگ و شجر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
کون و مکاں کی ہر شے میں ہیں فطرت کے اسرار و رموز
بحر و بر سے شمس و قمر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
مال بھی اکثر ہو جاتا ہے جان کا لوگوں کی جنجال
بطن صدف سے لعل و گہر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
ضد نہ کرو تم سن نہ سکو گے برقیؔ کا یہ سوز دروں
تیر نظر سے زخم جگر تک ایک کہانی بیچ میں ہے

غزل
اس کے گھر سے میرے گھر تک ایک کہانی بیچ میں ہے
احمد علی برقی اعظمی