دیکھ کر اس کو لگا جیسے کہیں ہو دیکھا
یاد بالکل نہیں آیا مجھے گھنٹوں سوچا
آفتاب شمسی
جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے
اب آر پار یہ پتھر دکھائی دیتا ہے
آفتاب شمسی
جو ساتھ لائے تھے گھر سے وہ کھو گیا ہے کہیں
ارادہ ورنہ ہمارا بھی واپسی کا تھا
آفتاب شمسی
میں جنگلوں میں درندوں کے ساتھ رہتا رہا
یہ خوف ہے کہ اب انساں نہ آ کے کھا لے کوئی
آفتاب شمسی
نام اپنا ہی میں سب سے کھڑا پوچھ رہا تھا
کچھ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا تھا
آفتاب شمسی
راہ تکتے جسم کی مجلس میں صدیاں ہو گئیں
جھانک کر اندھے کنوئیں میں اب تو کوئی بول دے
آفتاب شمسی
سبھی ہیں اپنے مگر اجنبی سے لگتے ہیں
یہ زندگی ہے کہ ہوٹل میں شب گزاری ہے
آفتاب شمسی
طوفان کی زد میں تھے خیالوں کے سفینے
میں الٹا سمندر کی طرف بھاگ رہا تھا
آفتاب شمسی