EN हिंदी
عبد الرحیم نشتر شیاری | شیح شیری

عبد الرحیم نشتر شیر

10 شیر

آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے
میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے

عبد الرحیم نشتر




اپنی ہی ذات کے صحرا میں سلگتے ہوئے لوگ
اپنی پرچھائیں سے ٹکرائے ہیولوں سے ملے

عبد الرحیم نشتر




دیکھ رہا تھا جاتے جاتے حسرت سے
سوچ رہا ہوگا میں اس کو روکوں گا

عبد الرحیم نشتر




میں بھی تالاب کا ٹھہرا ہوا پانی تھا کبھی
ایک پتھر نے رواں دھار کیا ہے مجھ کو

عبد الرحیم نشتر




میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں
برا سمجھ لے مگر دوسروں سے اچھا ہوں

عبد الرحیم نشتر




پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں
موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں

عبد الرحیم نشتر




پھٹے پرانے بدن سے کسے خرید سکوں
سجے ہیں کانچ کے پیکر بڑی دکانوں میں

عبد الرحیم نشتر




اس نے چلتے چلتے لفظوں کا زہراب
میرے جذبوں کی پیالی میں ڈال دیا

عبد الرحیم نشتر




وہ اجنبی تری بانہوں میں جو رہا شب بھر
کسے خبر کہ وہ دن بھر کہاں رہا ہوگا

عبد الرحیم نشتر