EN हिंदी
عبد الحمید شیاری | شیح شیری

عبد الحمید شیر

12 شیر

برستے تھے بادل دھواں پھیلتا تھا عجب چار جانب
فضا کھل اٹھی تو سراپا تمہارا بہت یاد آیا

عبد الحمید




دم بہ دم مجھ پہ چلا کر تلوار
ایک پتھر کو جلا دی اس نے

عبد الحمید




دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں
ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں

عبد الحمید




دور بستی پہ ہے دھواں کب سے
کیا جلا ہے جسے بجھاتے نہیں

عبد الحمید




ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے
پھر اندھیروں کو ہوا دی اس نے

عبد الحمید




فلک پر اڑتے جاتے بادلوں کو دیکھتا ہوں میں
ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ تماشا کیسا لگتا ہے

عبد الحمید




لوٹ گئے سب سوچ کے گھر میں کوئی نہیں ہے
اور یہ ہم کہ اندھیرا کر کے بیٹھ گئے ہیں

عبد الحمید




لوگوں نے بہت چاہا اپنا سا بنا ڈالیں
پر ہم نے کہ اپنے کو انسان بہت رکھا

عبد الحمید




پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں

عبد الحمید