ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں
دیکھو ہم بھی کیا کیا کر کے بیٹھ گئے ہیں
پوچھ رہے ہیں لوگ ارے وہ شخص کہاں ہے
جانے کون تماشا کر کے بیٹھ گئے ہیں
اترے تھے میدان میں سب کچھ ٹھیک کریں گے
سب کچھ الٹا سیدھا کر کے بیٹھ گئے ہیں
سارے شجر شادابی سمیٹے اپنی اپنی
دھوپ میں گہرا سایہ کر کے بیٹھ گئے ہیں
لوٹ گئے سب سوچ کے گھر میں کوئی نہیں ہے
اور یہ ہم کہ اندھیرا کر کے بیٹھ گئے ہیں
غزل
ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں
عبد الحمید