کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا
سرگرمی وحشت کا امکان بہت رکھا
ایسا تو نہ تھا مشکل اک ایک قدم اٹھنا
اس بار عجب میں نے سامان بہت رکھا
پربت کے کنارے سے اک راہ نکلتی ہے
دکھلایا بہت مشکل آسان بہت رکھا
کیا فرض تھا ہر اک کو خوشبو کا پتہ دینا
بس باغ محبت کو ویران بہت رکھا
لوگوں نے بہت چاہا اپنا سا بنا ڈالیں
پر ہم نے کہ اپنے کو انسان بہت رکھا
غزل
کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا
عبد الحمید