کہاں کہاں نہ تصور نے دام پھیلائے
حدود شام و سحر سے نکل کے دیکھ آئے
نہیں پیام رہ نامہ و پیام تو ہے
ابھی صبا سے کہو ان کے دل کو بہلائے
غرور جادہ شناسی بجا سہی لیکن
سراغ منزل مقصود بھی کوئی پائے
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ راہبر یہ کہے
چلے تھے جانے کہاں سے کہاں نکل آئے
گزر گیا کوئی درماندہ راہ یہ کہتا
اب اس فضا میں کوئی قافلے نہ ٹھہرائے
نہ جانے ان کے مقدر میں کیوں ہے تیرہ شبی
وہ ہم نوا جو سحر کو قریب تر لائے
کوئی فریب نظر ہے کہ تابناک فضا
کسے خبر کہ یہاں کتنے چاند گہنائے
غم زمانہ تری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں
کہ بڑھ چلے ہیں اب ان گیسوؤں کے بھی سائے
بہت بلند ہے اس سے مرا مقام غزل
اگرچہ میں نے محبت کے گیت بھی گائے
حفیظؔ اپنا مقدر حفیظؔ اپنا نصیب
گرے تھے پھول مگر ہم نے زخم ہی کھائے

غزل
کہاں کہاں نہ تصور نے دام پھیلائے
حفیظ ہوشیارپوری