EN हिंदी
رقیب شیاری | شیح شیری

رقیب

26 شیر

رقیب قتل ہوا اس کی تیغ ابرو سے
حرام زادہ تھا اچھا ہوا حلال ہوا

آغا اکبرآبادی




آغوش سیں سجن کے ہمن کوں کیا کنار
ماروں گا اس رقیب کوں چھڑیوں سے گود گود

آبرو شاہ مبارک




مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج

احمد حسین مائل




ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا

عالم تاب تشنہ




کہتے ہو کہ ہم درد کسی کا نہیں سنتے
میں نے تو رقیبوں سے سنا اور ہی کچھ ہے

امیر مینائی




نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے

انور دہلوی




یہ کہہ کے میرے سامنے ٹالا رقیب کو
مجھ سے کبھی کی جان نہ پہچان جائیے

بیخود دہلوی