EN हिंदी
رقیب شیاری | شیح شیری

رقیب

26 شیر

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

that new greeting in your note, from whom was it do say
if not my rival's signature, whose name was it then, pray?

داغؔ دہلوی




آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب

حفیظ جونپوری




حال میرا بھی جائے عبرت ہے
اب سفارش رقیب کرتے ہیں

حفیظ جونپوری




یاد آئیں اس کو دیکھ کے اپنی مصیبتیں
روئے ہم آج خوب لپٹ کر رقیب سے

حفیظ جونپوری




بیٹھے ہوئے رقیب ہیں دل بر کے آس پاس
کانٹوں کا ہے ہجوم گل تر کے آس پاس

جگر مراد آبادی




ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں
مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے

کیف بھوپالی




رقیب دونوں جہاں میں ذلیل کیوں ہوتا
کسی کے بیچ میں کمبخت اگر نہیں آتا

کیفی حیدرآبادی