نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے
ٹپکتا ہے پسینہ اس جبیں سے
ستارے جھڑتے ہیں ماہ مبیں سے
چلی آتی ہے ہونٹوں پر شکایت
ندامت ٹپکی پڑتی ہے جبیں سے
میں اس برہم مزاجی کے تصدق
الجھتے ہیں وہ زلف عنبریں سے
بصر کرتا رہا ہوں زندگانی
تا تیغ اس نگاہ شرمگیں سے
یہ کس نقش قدم پر جبہ سا ہوں
کہ سر اٹھتا نہیں اپنا زمیں سے
تمہیں ہم خواب دشمن دیکھتا ہوں
اٹھا پردہ یہ چاک آستیں سے
جہاں مدفون ہیں تیرے کشتہ ناز
یقیں ہے حشر اٹھے گا وہیں سے
نہیں کوئے عدو میں نقش پا تک
مگر وہ اڑ کے چلتے ہیں زمیں سے
جنوں میں اس غضب کی خاک اڑائی
بنایا آسماں ہم نے زمیں سے
گریباں گیر ہے یہاں شوق مردن
وہ خنجر تو نکالیں آستیں سے
کہاں کی دل لگی کیسی محبت
مجھے اک لاگ ہے جان حزیں سے
دو رنگی ایک جا ان سے نہ چھوٹی
مجھے مارا ادائے مہر و کیں سے
الٹ دے گا جہاں بسمل تڑپ کر
سنبھالو دست و پائے نازنیں سے
بجائے شمع جلتے ہیں سراپا
تمہاری بزم روشن ہے ہمیں سے
غضب ہی بے جگر تھا بسمل شوق
کہ جا لپٹا ترے فتراک زیں سے
وہ کچھ بے تابیاں بگڑے سے تیور
لڑائی میں مزا ہے اس حسیں سے
ادھر مارا ادھر مجھ کو جلایا
لب جاں بخش و چشم خشمگیں سے
نہ نکلی اس کے منہ سے آہ تک بھی
جسے مارا نگاہ شرمگیں سے
نہ دل قابو میں اور دل میں نہ اب صبر
کھینچیں کس بل پہ ہم اس خشمگیں سے
اٹھانے ایک قیامت بیٹھے ہیں وہ
غضب فتنے لگا لائے کمیں سے
کمی کی دست قاتل نے تو بسمل
بڑھائے دست و پائے نازنیں سے
ادھر لاؤ ذرا دست حنائی
پکڑ دیں چور دل کا ہم یہیں سے
اگر سچ ہے حسینوں میں تلوں
تو ہے امید وصل ان کی نہیں سے
برنگ بو نکلتے ہیں کرشمے
تمہاری نرگس سحر آفریں سے
جہنم ہے مجھے گلزار جنت
جدا ہوں ایک ازار آتشیں سے
یہ پردے ہیں با شوق دیدار
یہ ساری لن ترانی ہے ہمیں سے
جہاں کو جلوہ گاہ یار دیکھیں
جو نظارہ کریں چشم یقیں سے
مجھے کیا غم کہ بار الفت غیر
نہ اٹھے گا کبھی اس نازنیں سے
سنانیں چل رہی ہیں جان و دل پر
نگاہیں لڑ رہی ہیں اک حسیں سے
وہاں عاشق کشی ہے عین ایماں
انہیں کیا بحث انورؔ کفر و دیں سے
غزل
نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
انور دہلوی