ہر چوٹ پر زمانے کی ہم مسکرائے ہیں
لیکن ترے خیال میں آنسو بہائے ہیں
حد کو پہنچ گئی ہے مری نا مردیاں
منزل کے پاس آ کے قدم ڈگمگائے ہیں
اے زلف کائنات تجھے کیا خبر کہ ہم
کن پیچ و خم سے چھٹ کے ترے پاس آئے ہیں
اے جان کائنات ترے انتظار میں
ہم نے کئی چراغ جلائے بجھائے ہیں
جو چل پڑے تھے عزم سفر لے کے تھک گئے
جو لڑکھڑا رہے تھے وہ منزل پہ آئے ہیں
حیرتؔ نظام کہنہ کی تاریکیوں میں بھی
ہم نے نظام تازہ کے دیپک جلائے ہیں
غزل
ہر چوٹ پر زمانے کی ہم مسکرائے ہیں
حیرت سہروردی