آج آئینے میں جو کچھ بھی نظر آتا ہے
اس کے ہونے پہ یقیں بار دگر آتا ہے
ذہن و دل کرتا ہوں جب رنج جہاں سے خالی
کوئی بے طرح مری روح میں در آتا ہے
گفتگو کرتے ہوئے جاتے ہیں پھولوں کے گروہ
اور چپکے سے درختوں پہ ثمر آتا ہے
بچ نکلنے پہ مرے خوش نہیں وہ جان بہار
کوئی الزام مکرر مرے سر آتا ہے
لوٹ جانے کی اجازت نہیں دوں گا اس کو
کوئی اب میرے تعاقب میں اگر آتا ہے
میری آنکھیں بھی میسر نہیں آتیں مجھ کو
جب ملاقات کو وہ خواب سحر آتا ہے
میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ
دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے
غزل
آج آئینے میں جو کچھ بھی نظر آتا ہے
غلام حسین ساجد