EN हिंदी
مہفیل شیاری | شیح شیری

مہفیل

9 شیر

کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا

ابو الکلام آزاد




جانے کیا محفل پروانہ میں دیکھا اس نے
پھر زباں کھل نہ سکی شمع جو خاموش ہوئی

علیم مسرور




اٹھ کے اس بزم سے آ جانا کچھ آسان نہ تھا
ایک دیوار سے نکلا ہوں جو در سے نکلا

علیم مسرور




شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا

داغؔ دہلوی




مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

فانی بدایونی




تمہاری بزم سے نکلے تو ہم نے یہ سوچا
زمیں سے چاند تلک کتنا فاصلہ ہوگا

کفیل آزر امروہوی




فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے

مجروح سلطانپوری