EN हिंदी
انسان شیاری | شیح شیری

انسان

40 شیر

بستی میں اپنی ہندو مسلماں جو بس گئے
انساں کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے

کیفی اعظمی




کیا ترے شہر کے انسان ہیں پتھر کی طرح
کوئی نغمہ کوئی پائل کوئی جھنکار نہیں

کاملؔ بہزادی




بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا
ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف انساں نہیں ملتا

خالد حسن قادری




پھول کر لے نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

خمارؔ بارہ بنکوی




غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں
آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے

خورشید اکبر




روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں
آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں

خوشبیر سنگھ شادؔ




اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں

مغیث الدین فریدی