EN हिंदी
سایۂ زلف نہیں شعلۂ رخسار نہیں | شیح شیری
saya-e-zulf nahin shola-e-ruKHsar nahin

غزل

سایۂ زلف نہیں شعلۂ رخسار نہیں

کاملؔ بہزادی

;

سایۂ زلف نہیں شعلۂ رخسار نہیں
کیا ترے شہر میں سرمایۂ دیدار نہیں

وقت پڑ جائے تو جاں سے بھی گزر جائیں گے
ہم دوانے ہیں محبت کے اداکار نہیں

کیا ترے شہر کے انسان ہیں پتھر کی طرح
کوئی نغمہ کوئی پائل کوئی جھنکار نہیں

کس لیے اپنی خطاؤں پہ رہیں شرمندہ
ہم خدا کے ہیں زمانے کے گنہ گار نہیں

سرخ رو ہو کے نکلنا تو بہت مشکل ہے
دست قاتل میں یہاں ساز ہے تلوار نہیں

مول کیا زخم دل و جاں کا ملے گا کاملؔ
شاخ گل کا بھی یہاں کوئی خریدار نہیں