EN हिंदी
دوشنمان شیاری | شیح شیری

دوشنمان

32 شیر

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

عرفانؔ صدیقی




دوستوں اور دشمنوں میں کس طرح تفریق ہو
دوستوں اور دشمنوں کی بے رخی ہے ایک سی

جان کاشمیری




بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز




دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

کلیم عاجز




میرے دشمن نہ مجھ کو بھول سکے
ورنہ رکھتا ہے کون کس کو یاد

خلیلؔ الرحمن اعظمی




دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے
دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد

خمارؔ بارہ بنکوی




دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا
دوستوں کو آزماتے جائیے

خمارؔ بارہ بنکوی