نور کی کرن اس سے خود نکلتی رہتی ہے
وقت کٹتا رہتا ہے رات ڈھلتی رہتی ہے
اور ذکر کیا کیجے اپنے دل کی حالت کا
کچھ بگڑتی رہتی ہے کچھ سنبھلتی رہتی ہے
ذہن ابھار دیتا ہے نقش حال و ماضی کے
ان دنوں طبیعت کچھ یوں بہلتی رہتی ہے
تہہ نشین موجیں تو پر سکون رہتی ہیں
اور سطح دریا کی موج اچھلتی رہتی ہے
چاہے اپنے غم کی ہو یا غم زمانہ کی
بات تو بہر صورت کچھ نکلتی رہتی ہے
زندگی ہے نام اس کا تازگی ہے کام اس کا
ایک موج خوں دل سے جو ابلتی رہتی ہے
کیف بھی ہے مستی بھی زہر بھی ہے امرت بھی
وہ جو جام ساقی سے روز ڈھلتی رہتی ہے
آج بھی بری کیا ہے کل بھی یہ بری کیا تھی
اس کا نام دنیا ہے یہ بدلتی رہتی ہے
ہوتی ہے وہ شعروں میں منعکس کبھی اعجازؔ
مدتوں گھٹن سی جو دل میں پلتی رہتی ہے
غزل
نور کی کرن اس سے خود نکلتی رہتی ہے
اعجاز صدیقی