EN हिंदी
دوست شیاری | شیح شیری

دوست

53 شیر

یہ دل لگانے میں میں نے مزا اٹھایا ہے
ملا نہ دوست تو دشمن سے اتحاد کیا

حیدر علی آتش




یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں

اسماعیلؔ میرٹھی




دوستوں اور دشمنوں میں کس طرح تفریق ہو
دوستوں اور دشمنوں کی بے رخی ہے ایک سی

جان کاشمیری




ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو

جون ایلیا




داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

کیف بھوپالی




اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے

کیف بھوپالی




بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز