EN हिंदी
آواز شیاری | شیح شیری

آواز

18 شیر

چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے

اسرار الحق مجاز




میری یہ آرزو ہے وقت مرگ
اس کی آواز کان میں آوے

غمگین دہلوی




تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے

غلام محمد قاصر




کوئی آیا تری جھلک دیکھی
کوئی بولا سنی تری آواز

جوشؔ ملیح آبادی




میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا

منصورہ احمد




تفریق حسن و عشق کے انداز میں نہ ہو
لفظوں میں فرق ہو مگر آواز میں نہ ہو

منظر لکھنوی




میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے

میر تقی میر