اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے
میں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے
تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے
سروں پر خوف رسوائی کی چادر تان لیتے ہو
تمہارے واسطے رنگوں کی جب برسات ہوتی ہے
کہیں چڑیاں چہکتی ہیں کہیں کلیاں چٹکتی ہیں
مگر میرے مکاں سے آسماں تک رات ہوتی ہے
کسے آباد سمجھوں کس کا شہر آشوب لکھوں میں
جہاں شہروں کی یکساں صورت حالات ہوتی ہے
غزل
اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے
غلام محمد قاصر