EN हिंदी
اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے | شیح شیری
akela din hai koi aur na tanha raat hoti hai

غزل

اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے

غلام محمد قاصر

;

اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے
میں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے

تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے

سروں پر خوف رسوائی کی چادر تان لیتے ہو
تمہارے واسطے رنگوں کی جب برسات ہوتی ہے

کہیں چڑیاں چہکتی ہیں کہیں کلیاں چٹکتی ہیں
مگر میرے مکاں سے آسماں تک رات ہوتی ہے

کسے آباد سمجھوں کس کا شہر آشوب لکھوں میں
جہاں شہروں کی یکساں صورت حالات ہوتی ہے