سارا عالم گوش بر آواز ہے
آج کن ہاتھوں میں دل کا ساز ہے
تو جہاں ہے زمزمہ پرداز ہے
دل جہاں ہے گوش بر آواز ہے
ہاں ذرا جرأت دکھا اے جذب دل
حسن کو پردے پہ اپنے ناز ہے
ہم نشیں دل کی حقیقت کیا کہوں
سوز میں ڈوبا ہوا اک ساز ہے
آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم
میری مے خواری ابھی تک راز ہے
ہنس دیے وہ میرے رونے پر مگر
ان کے ہنس دینے میں بھی اک راز ہے
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے
حسن کو ناحق پشیماں کر دیا
اے جنوں یہ بھی کوئی انداز ہے
ساری محفل جس پہ جھوم اٹھی مجازؔ
وہ تو آواز شکست ساز ہے
غزل
سارا عالم گوش بر آواز ہے
اسرار الحق مجاز