تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا
یہ اور بات کہ سورج افق پہ نکلا تھا
عجیب وجہ ملاقات تھی مری اس سے
کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا
میں سب سمجھتی رہی اور مسکراتی رہی
مرا مزاج ازل سے پیمبروں سا تھا
میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا
میں گل پرست بھی گل سے نباہ کر نہ سکی
شعور ذات کا کانٹا بہت نکیلا تھا
سب احتساب میں گم تھے ہجوم یاراں میں
خدا کی طرح مرا جرم عشق تنہا تھا
وہ تیرے قرب کا لمحہ تھا یا کوئی الہام
کہ اس کے لمس سے دل میں گلاب کھلتا تھا
مجھے بھی میرے خدا کلفتوں کا اجر ملے
تجھے زمیں پہ بڑے کرب سے اتارا تھا
غزل
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا
منصورہ احمد