EN हिंदी
فریکچر شیاری | شیح شیری

فریکچر

19 شیر

کیا کیا دل مضطر کے ارمان مچلتے ہیں
تصویر قیامت ہے ظالم تری انگڑائی

رام کرشن مضطر




بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

ساغر صدیقی




کیوں چمک اٹھتی ہے بجلی بار بار
اے ستم گر لے نہ انگڑائی بہت

ساحل احمد




سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا
کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

شاد عظیم آبادی




تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو
آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ

شکیل بدایونی