EN हिंदी
پھر بھیگ چلیں آنکھیں چلنے لگی پروائی | شیح شیری
phir bhig chalin aankhen chalne lagi purwai

غزل

پھر بھیگ چلیں آنکھیں چلنے لگی پروائی

رام کرشن مضطر

;

پھر بھیگ چلیں آنکھیں چلنے لگی پروائی
ہر زخم ہوا تازہ ہر چوٹ ابھر آئی

پھر یاد کوئی آیا پھر اشک امڈ آئے
پھر عشق نے سینے میں اک آگ سی بھڑکائی

برباد محبت کا عالم ہی عجب دیکھا
سو بار لہو رویا سو بار ہنسی آئی

رہتا ہے خیالوں میں پھرتا ہے نگاہوں میں
اک شاہد رنگیں کا وہ عالم رعنائی

کس رنگ سے گلشن میں وہ جان بہار آیا
آنچل کی ہوا آئی زلفوں کی گھٹا چھائی

پھر صحن گلستاں میں اک موج ہوئی رقصاں
پھر میری نگاہوں میں زنجیر سی لہرائی

اے حسن ترے در کی عظمت ہے نگاہوں میں
کب عشق کو آتے تھے آداب جبیں سائی

کیا کیا دل مضطر کے ارمان مچلتے ہیں
تصویر قیامت ہے ظالم تری انگڑائی

اک روح‌ ترنم نے اک جان تغزل نے
پھر آج نئی دھن میں مضطرؔ کی غزل گائی