اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت
کیوں ستاتی ہے یہ تنہائی بہت
ہجر کی سوغات کیا لائی بہت
بے تحاشہ یاد بھی آئی بہت
پیچ و خم زلفوں کا سارا کھل گیا
رات بھر آنکھوں میں لہرائی بہت
کیوں چمک اٹھتی ہے بجلی بار بار
اے ستم گر لے نہ انگڑائی بہت
گھر سے ساحلؔ آ کے لوٹی دھوپ کیا
ہو گئی میری تو رسوائی بہت
غزل
اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت
ساحل احمد