EN हिंदी
اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت | شیح شیری
uski aankhon mein thi gahrai bahut

غزل

اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت

ساحل احمد

;

اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت
کیوں ستاتی ہے یہ تنہائی بہت

ہجر کی سوغات کیا لائی بہت
بے تحاشہ یاد بھی آئی بہت

پیچ و خم زلفوں کا سارا کھل گیا
رات بھر آنکھوں میں لہرائی بہت

کیوں چمک اٹھتی ہے بجلی بار بار
اے ستم گر لے نہ انگڑائی بہت

گھر سے ساحلؔ آ کے لوٹی دھوپ کیا
ہو گئی میری تو رسوائی بہت