کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا
ہائے وہ خود رفتگی الجھے ہوئے سب سر کے بال
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا
جس طرف جائے نظر اپنا ہی جلوہ تھا عیاں
جسم میں ہم تھے کہ وحشی آئینہ خانے میں تھا
بوریا تھا کچھ شبینہ مے تھی یا ٹوٹے سبو
اور کیا اس کے سوا مستوں کے ویرانے میں تھا
ہنستے ہنستے رو دیا کرتے تھے سب بے اختیار
اک نئی ترکیب کا درد اپنے افسانے میں تھا
سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا
کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا
دون کی لیتا تو ہے زاہد مگر میں کیا کہوں
متقی ساقی سے بڑھ کر کون مے خانے میں تھا
پاس تھا زنجیر تک کا طوق پر کیا منحصر
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا
دیر تک میں ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھا کیا
چہرۂ ساقی نمایاں صاف پیمانے میں تھا
ہائے پروانے کا وہ جلنا وہ رونا شمع کا
میں نے روکا ورنہ کیا آنسو نکل آنے میں تھا
خود غرض دنیا کی حالت قابل عبرت تھی شادؔ
لطف ملنے کا نہ اپنے میں نہ بیگانے میں تھا
شادؔ کچھ پوچھو نہ مجھ سے میرے دل کے داغ کو
ٹمٹماتا سا چراغ اک اپنے ویرانے میں تھا
غزل
کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
شاد عظیم آبادی