EN हिंदी
فریکچر شیاری | شیح شیری

فریکچر

19 شیر

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

جون ایلیا




شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے

جون ایلیا




دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں
کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی

جگر مراد آبادی




الٰہی کیا علاقہ ہے وہ جب لیتا ہے انگڑائی
مرے سینے میں سب زخموں کے ٹانکے ٹوٹ جاتے ہیں

جرأت قلندر بخش




انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دئیے مسکرا کے ہاتھ

she couldn't even stretch out with her arms upraised
seeing me she smiled and composed herself all fazed

نظام رامپوری




اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

Till even now in rainy climes, my limbs are aching, sore
The yen to stretch out languidly then comes to the fore

پروین شاکر




لٹ گئے ایک ہی انگڑائی میں ایسا بھی ہوا
عمر بھر پھرتے رہے بن کے جو ہشیار بہت

قیس رامپوری