جب سے دریا میں ہے طغیانی بہت
پار جانے میں ہے آسانی بہت
کوئی منظر بھی نہیں اچھا لگا
اب کے آنکھوں میں ہے ویرانی بہت
اپنی قیمت تو نہیں لیکن یہاں
ایسے گوہر کی ہے ارزانی بہت
کھیت ہیں بنجر تو صحرا بے نمو
ورنہ دریاؤں میں ہے پانی بہت
اس کے چہرے پر مری آنکھیں سجیں
میرے چہرے پر تھی حیرانی بہت
کیا خلوص و مہر کی باتیں کریں
زندگی میں ہے پشیمانی بہت
ہر کسی کو علم ہے عابد ودودؔ
باتیں اس کی جانی پہچانی بہت
غزل
جب سے دریا میں ہے طغیانی بہت
عابد ودود