EN हिंदी
جب سے دریا میں ہے طغیانی بہت | شیح شیری
jab se dariya mein hai tughyani bahut

غزل

جب سے دریا میں ہے طغیانی بہت

عابد ودود

;

جب سے دریا میں ہے طغیانی بہت
پار جانے میں ہے آسانی بہت

کوئی منظر بھی نہیں اچھا لگا
اب کے آنکھوں میں ہے ویرانی بہت

اپنی قیمت تو نہیں لیکن یہاں
ایسے گوہر کی ہے ارزانی بہت

کھیت ہیں بنجر تو صحرا بے نمو
ورنہ دریاؤں میں ہے پانی بہت

اس کے چہرے پر مری آنکھیں سجیں
میرے چہرے پر تھی حیرانی بہت

کیا خلوص و مہر کی باتیں کریں
زندگی میں ہے پشیمانی بہت

ہر کسی کو علم ہے عابد ودودؔ
باتیں اس کی جانی پہچانی بہت