لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے
اب تو زہر الفاظ میں رکھا جاتا ہے
مشکل ہے اک بات ہمارے مسلک کی
اپنے آپ کو راز میں رکھا جاتا ہے
اک شعلہ رکھنا ہوتا ہے سینے میں
اک شعلہ آواز میں رکھا جاتا ہے
ہم لوگوں کو خواب دکھا کر منزل کا
رستے کے آغاز میں رکھا جاتا ہے
یہاں تو اڑتے اڑتے تھک کر گرنے تک
چڑیا کو پرواز میں رکھا جاتا ہے
آخر شب جو خواب دکھائی دیتے ہوں
اظہرؔ ان کو راز میں رکھا جاتا ہے
غزل
لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے
اظہر ادیب