گرم تلاش و جستجو اب ہے تری نظر کہاں
خون ہے کچھ جما ہوا قلب کہاں جگر کہاں
ہے یہ طریق عاشقی چاہیئے اس میں بے خودی
اس میں چناں چنیں کہاں اس میں اگر مگر کہاں
زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا
ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں
کیجیے آج کس طرح دوڑ کے سجدۂ نیاز
یہ بھی تو ہوش اب نہیں پاؤں کہاں ہے سر کہاں
ہائے وہ دن گزر گئے جوشش اضطراب کے
نیند قفس میں آ گئی اب غم بال و پر کہاں
ہوش و خرد کے پھیرے میں عمر عزیز صرف کی
رات تو کٹ گئی یہاں دیکھیے ہو سحر کہاں
غزل
گرم تلاش و جستجو اب ہے تری نظر کہاں
اصغر گونڈوی