EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

رہا خواب میں ان سے شب بھر وصال
مرے بخت جاگے میں سویا کیا

امیر مینائی




روز و شب یاں ایک سی ہے روشنی
دل کے داغوں کا چراغاں اور ہے

امیر مینائی




سادہ سمجھو نہ انہیں رہنے دو دیواں میں امیرؔ
یہی اشعار زبانوں پہ ہیں رہنے والے

امیر مینائی




سارا پردہ ہے دوئی کا جو یہ پردہ اٹھ جائے
گردن شیخ میں زنار برہمن ڈالے

امیر مینائی




ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

امیر مینائی




سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے

امیر مینائی




سمجھتا ہوں سبب کافر ترے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا

امیر مینائی