EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا

امیر مینائی




شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

امیر مینائی




شاخوں سے برگ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
زیور اتر رہا ہے عروس بہار کا

امیر مینائی




شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا

امیر مینائی




شیخ کہتا ہے برہمن کو برہمن اس کو سخت
کعبہ و بت خانہ میں پتھر ہے پتھر کا جواب

امیر مینائی




شوق کہتا ہے پہنچ جاؤں میں اب کعبہ میں جلد
راہ میں بت خانہ پڑتا ہے الٰہی کیا کروں

امیر مینائی




سیدھی نگاہ میں تری ہیں تیر کے خواص
ترچھی ذرا ہوئی تو ہیں شمشیر کے خواص

امیر مینائی