جو دشت تمنا میں ہر وقت بھٹکتا ہے
انسان کا دل ایسا معصوم پرندہ ہے
اک خاک کا تودہ ہے پر عظمت دنیا ہے
نقاش حقیقت نے کیا نقش تراشا ہے
میں اوروں کو کیا پرکھوں آئنۂ عالم میں
محتاج شناسائی جب اپنا ہی چہرا ہے
ہم اپنی حقیقت کیا پہچان سکیں یارو
پردہ ہے نگاہوں پہ ذہنوں میں دھندلکا ہے
سوز غم ہستی سے واحدؔ تری نس نس میں
یہ گرم لہو کیا ہے بہتا ہوا لاوا ہے
غزل
جو دشت تمنا میں ہر وقت بھٹکتا ہے
واحد پریمی