لب نگار کو زحمت نہ دو خدا کے لیے
ہم اہل شوق زبان نظر سمجھتے ہیں
غلام ربانی تاباںؔ
لب نگار کو زحمت نہ دو خدا کے لیے
ہم اہل شوق زبان نظر سمجھتے ہیں
غلام ربانی تاباںؔ
میں نے کب دعویٰ الہام کیا ہے تاباںؔ
لکھ دیا کرتا ہوں جو دل پہ گزرتی جائے
غلام ربانی تاباںؔ
منزلیں راہ میں تھیں نقش قدم کی صورت
ہم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا کسی منزل کی طرف
غلام ربانی تاباںؔ
منزلیں راہ میں تھیں نقش قدم کی صورت
ہم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا کسی منزل کی طرف
غلام ربانی تاباںؔ
میرے افکار کی رعنائیاں تیرے دم سے
میری آواز میں شامل تری آواز بھی ہے
غلام ربانی تاباںؔ
رہ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے
غلام ربانی تاباںؔ