کھڑکیاں کھول لوں ہر شام یوں ہی سوچوں کی
پھر اسی راہ سے یادوں کو گزرتا دیکھوں
سیدہ نفیس بانو شمع
خواب اور نیندوں کا ختم ہو گیا رشتہ
مدتوں سے آنکھوں میں رت جگوں کا موسم ہے
سیدہ نفیس بانو شمع
مہر و وفا خلوص تمنا ملن کی آس
کچھ کم نہیں کہ ہم نے یہ موتی بچا لیے
سیدہ نفیس بانو شمع
آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار
روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے
تعشق لکھنوی
عدم سے دہر میں آنا کسے گوارا تھا
کشاں کشاں مجھے لائی ہے آرزو تیری
تعشق لکھنوی
عدم سے دہر میں آنا کسے گوارا تھا
کشاں کشاں مجھے لائی ہے آرزو تیری
تعشق لکھنوی
بڑھتے بڑھتے آتش رخسار لو دینے لگی
رفتہ رفتہ کان کے موتی شرارے ہو گئے
تعشق لکھنوی