خود سے لپٹ کے رو لیں بہت مسکرا لیے
خوشیوں سے آج درد کے پہلو نکالئے
اس نے تری نگاہ سے کیا راز پا لیے
خود اپنے دل میں اس نے ٹھکانے بنا لیے
دامن میں تو گرے تھے کئی پھول بھی مگر
پلکوں سے چن کے ہم نے ترے غم اٹھا لیے
اب تم نہ کہہ سکو گے کہ ہم سرخ رو نہیں
اپنے لہو میں آج تو ہم بھی نہا لیے
مہر و وفا خلوص تمنا ملن کی آس
کچھ کم نہیں کہ ہم نے یہ موتی بچا لیے
دعویٰ تھا جن کو اپنی مسیحائی پر بہت
اے شمعؔ ان کے ہم نے کرم آزما لیے
غزل
خود سے لپٹ کے رو لیں بہت مسکرا لیے
سیدہ نفیس بانو شمع