ابھی رکھا رہنے دو طاق پر یوں ہی آفتاب کا آئنہ
کہ ابھی تو میری نگاہ میں وہی میرا ماہ تمام ہے
سراج لکھنوی
بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
پڑا ہے کام بدلتے ہوئے زمانے سے
سراج لکھنوی
چمک شاید ابھی گیتی کے ذروں کی نہیں دیکھی
ستارے مسکراتے کیوں ہیں زیب آسماں ہو کر
سراج لکھنوی
چمک شاید ابھی گیتی کے ذروں کی نہیں دیکھی
ستارے مسکراتے کیوں ہیں زیب آسماں ہو کر
سراج لکھنوی
چند تنکوں کی سلیقے سے اگر ترتیب ہو
بجلیوں کو بھی طواف آشیاں کرنا پڑے
سراج لکھنوی
چراغ سجدہ جلا کے دیکھو ہے بت کدہ دفن زیر کعبہ
حدود اسلام ہی کے اندر یہ سرحد کافری ملے گی
سراج لکھنوی
چراغ سجدہ جلا کے دیکھو ہے بت کدہ دفن زیر کعبہ
حدود اسلام ہی کے اندر یہ سرحد کافری ملے گی
سراج لکھنوی