EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تعلق توڑ کر اس کی گلی سے
کبھی میں جڑ نہ پایا زندگی سے

سراج فیصل خان




ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں
کبھی صحرا کبھی دریا ہوا میں

سراج فیصل خان




ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں
کبھی صحرا کبھی دریا ہوا میں

سراج فیصل خان




تری حیات سے جڑ جاؤں واقعہ بن کر
تری کتاب میں میرا بھی اقتباس رہے

سراج فیصل خان




تم اس کو بلندی سے گرانے میں لگے ہو
تم اس کو نگاہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے

سراج فیصل خان




تو جا رہا تھا بچھڑ کے تو ہر قدم پہ ترے
پھسل رہی تھی مرے پاؤں سے زمین بہت

سراج فیصل خان




اس کے دل کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی
مجھ کو شہرت مل گئی الزام سے

سراج فیصل خان