مجھے ہر شام اک سنسان جنگل کھینچ لیتا ہے
اور اس کے بعد پھر خونی بلائیں رقص کرتی ہیں
شمیم روش
قبیلہ وار عداوت کا سلسلہ طارقؔ
فساد شہر کی صورت میں اب بھی چلتا ہے
شمیم طارق
تمام شہر بیک وقت جل گیا کیسے
محافظوں کے دلوں میں فتور تھا کیا تھا
شمیم طارق
آنکھیں دھوکا دے گئیں پاؤں چھوڑ گئے ساتھ
سبھی سہارے دور ہیں کس کا پکڑیں ہاتھ
شمس فرخ آبادی
آنکھیں دھوکا دے گئیں پاؤں چھوڑ گئے ساتھ
سبھی سہارے دور ہیں کس کا پکڑیں ہاتھ
شمس فرخ آبادی
بھلے برے برتاؤ کا ہے اتنا سا راز
گونجے پلٹ کے جس طرح گنبد کی آواز
شمس فرخ آبادی
بچھڑے ہوؤں کے آج پھر خط کچھ ایسے آئے
جیسے پٹری ریل کی دور پہ اک ہو جائے
شمس فرخ آبادی