وہ بھی نہ آیا عمر گزشتہ کے مثل ہی
ہم بھی کھڑے رہے در و دیوار کی طرح
سرفراز خالد
وہ چہرہ مجھے صاف دکھائی نہیں دیتا
رہ جاتی ہیں سایوں میں الجھ کر مری آنکھیں
سرفراز خالد
وہ مضطرب تھا بہت مجھ کو درمیاں کر کے
سو پا لیا ہے اسے خود کو رائیگاں کر کے
سرفراز خالد
یہ کائنات بھی کیا قید خانہ ہے کوئی
یہ زندگی بھی کوئی طرز انتقام ہے کیا
سرفراز خالد
یہ کائنات بھی کیا قید خانہ ہے کوئی
یہ زندگی بھی کوئی طرز انتقام ہے کیا
سرفراز خالد
زیست کی یکسانیت سے تنگ آ جاتے ہیں سب
ایک دن تو بھی مری باتوں سے اکتا جائے گا
سرفراز خالد
آئینہ چپکے سے منظر وہ چرا لیتا ہے
تو سجاتا ہے بدن جب کبھی عریانی سے
سرفراز نواز