EN हिंदी
خواہش تخت نہ اب درہم و دینار کی گونج | شیح شیری
KHwahish-e-taKHt na ab dirham-o-dinar ki gunj

غزل

خواہش تخت نہ اب درہم و دینار کی گونج

سلیم صدیقی

;

خواہش تخت نہ اب درہم و دینار کی گونج
وادیٔ چشم میں ہے حسرت دیدار کی گونج

زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع
اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج

کاش میری بھی سماعت کو ٹھکانہ دے دے
دشت محشر میں ترے سایۂ دیوار کی گونج

آہٹیں بھی نہیں کرتے مرے اعمال کبھی
ایک آواز نہاں ہے مرے کردار کی گونج

جب بہت غور کیا ہے تو سنائی دی ہے
مفلس شہر کی چپ میں کسی زردار کی گونج

جس نے سوکھی ہوئی مٹی سے بنائے کوزے
شہر زمزم سے اٹھی ہے اسی فن کار کی گونج

ایک مدت سے بھٹکتی ہوئی پھرتی ہے سلیمؔ
کوچۂ دل میں محبت کے طلبگار کی گونج