ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
رضی اختر شوق
ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
رضی اختر شوق
ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ
رضی اختر شوق
مجھ کو پانا ہے تو پھر مجھ میں اتر کر دیکھو
یوں کنارے سے سمندر نہیں دیکھا جاتا
رضی اختر شوق
مجھ کو پانا ہے تو پھر مجھ میں اتر کر دیکھو
یوں کنارے سے سمندر نہیں دیکھا جاتا
رضی اختر شوق
چشمۂ ناب نہ بڑھ کر جنوں سیلاب بنے
بہہ نہ جائے کہ یہ مٹی کا مکاں ہے اب کے
رضی رضی الدین
چھلکا پڑا ہے چہروں سے اک وحشت جنوں
پھیلا پڑا ہے عشق کا بازار خیر ہو
رضی رضی الدین